Monday, August 09, 2021

بینکار آغا سید حسن عابدی

 مشہور و معروف حقیقی سماجی شخصیت مرحوم معروف بینکار  آغا سید حسن عابدی🥰
عقیل عباس جعفری محقق و مورخ BBC

لکھنؤ یونیورسٹی میں آغا حسن عابدی کے سب سے قریبی دوست عبادت یار خان تھے، جو ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے معروف ہوئے۔ وہ اپنی کتاب 'غزالان رعنا' میں آغا حسن عابدی کا ایک بہت خوبصورت خاکہ لکھتے ہیں:

آغا حسن عابدی لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔

ایک دن آغا حسن عابدی نے عبادت بریلوی سے کہا 'نہ میں لیکچرر شپ کرسکتا ہوں، نہ وکالت، دونوں پیشے میرے مزاج کے نہیں۔ سوچتا ہوں محمود آباد اسٹیٹ میں ،جہاں میرے والد ملازم ہیں ،کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لوں۔‘

عبادت بریلوی نے ان سے کہا 'اتنا پڑھ لکھ کر محمود آباد ریاست کی ملازمت تمہارے شایان شان نہیں ہوگی۔ ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے۔ حبیب بینک نیا نیا کھلا ہے، یہ مسلمانوں کا بینک ہے۔ اگر راجہ صاحب محمود آباد، حبیب سیٹھ کو سفارشی خط لکھ دیں گے تو اس بینک میں تمہیں آفیسر کی جگہ مل جائے گی۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اس کے لیے تمہیں بمبئی جانا ہو گا، لکھنؤ سے باہر رہنا ہو گا۔'

آغا حسن عابدی نے کہا 'یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں بینک کی ملازمت کروں گا! تم میرے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یہ ملازمت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

عبادت بریلوی نے کہا 'میاں صاحبزادے! حالات بہت سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، مجھے تو صرف یہی دروازہ کھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ راجہ صاحب سے حبیب سیٹھ کے نام خط لکھوالو اور چپ چاپ بمبئی چلے جاؤ۔ اس ملازمت میں آئندہ ترقی کے امکانات بہت ہیں۔‘
آغا حسن عابدی کو عبادت بریلوی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی، لیکن وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: 'بالآخر انھوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حبیب سیٹھ کو خط لکھنے کی درخواست کی۔ راجہ صاحب نہایت شریف انسان تھے۔ انھوں نے آغا حسن عابدی کے لیے خط لکھ دیا اور کہا کہ 'یہ خط لے کر آپ بمبئی چلے جائیے، انشااللہ کام ہو جائے گا۔'

دوسرے دن یہ خط لے کر آغا حسن عابدی عبادت بریلوی کے گھر پر آئے اور کہنے لگے 'یار! راجہ صاحب نے ازراہ نوازش خط تو لکھ دیا ہے۔ لیکن میں الجھن میں ہوں۔ کیا کروں؟ مجھے رائے دو!۔'

عبادت صاحب نے کہا 'یہ خط لے کر آپ فوراً بمبئی چلے جایئے۔ حبیب سیٹھ سے ملیے، یہ خط انھیں پہنچائیے اور حبیب بینک میں افسر کے عہدے پر فائز ہو جائیے۔‘

آغا حسن عابدی عبادت بریلوی کی بات مانتے تھے، اس لیے ان کے کہنے پر بمبئی جانے کے لیے تیار ہو گئے اور ایک ہفتے بعد بادل نخواستہ بمبئی روانہ ہو گئے۔

تین چار دن کے بعد بمبئی سے عبادت بریلوی کے نام آغا حسن عابدی کا خط آیا۔ لکھا تھا: 'راجہ صاحب کے خط نے بڑا کام کیا۔ مجھے ملازمت مل گئی، یہاں ماحول اچھا ہے، بمبئی شہر بہت خوب صورت ہے۔ میرا دل یہاں لگ گیا ہے۔ ابھی ٹریننگ ہو رہی ہے۔ تین چار مہینے میں ٹریننگ مکمل ہو گی اور حبیب بینک کی مختلف برانچوں کی تنظیم کا کام میرے سپرد کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرنا ہو گا۔‘

عبادت بریلوی کہتے ہیں کہ یہ خط پڑھ کر انھیں بے حد خوشی ہوئی۔

آغا حسن عابدی اپنے بینکنگ کے کاموں کے سلسلہ میں دہلی آتے جاتے رہے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ عبادت بریلوی اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے، آغا حسن عابدی پاکستان آ گئے اور انھوں نے حبیب بینک میں ترقی کے مدارج طے کرنا شروع کر دیے۔

سہگل خاندان سے تعلقات اور یونائیٹڈ بینک کا قیام

حبیب بینک میں ملازمت کے دوران آغا حسن عابدی کے تعلقات پاکستان کی کاروباری شخصیات سے استوار ہونا شروع ہوئے جن میں سہگل خاندان کا نام سرفہرست تھا۔ 1959 میں حبیب خاندان نے سہگل خاندان کو ایک ایسے کاروباری معاملے میں بینک گارنٹی دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس میں حبیب خاندان خود بھی دلچسپی رکھتا تھا۔

آغا حسن عابدی نے حبیب خاندان کو ایسا کرنے سے باز رکھنا چاہا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی نتیجہ حبیب بینک سے آغا حسن عابدی کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔

سہگل خاندان نے آغا حسن عابدی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یوں سات نومبر 1959 کو یونائیٹڈ بینک کا قیام عمل میں آ گیا جس کے لیے سرمایہ سہگل خاندان نے فراہم کیا تھا اور اس کے پیچھے ذہن آغا حسن عابدی کا تھا۔

پاکستان کے بینکنگ کے افق پر اگلے 10-12 برس یونائیٹڈ بینک کے عروج کے برس تھے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ ہی نہیں چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اس کی شاخیں کھلتی چلی گئیں۔ مغربی پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی یونائیٹڈ بینک اپنی ساکھ بنا رہا تھا۔ سہگل گروپ کی سرپرستی کی وجہ سے پاکستان کا دیگر کاروباری حلقہ بھی یونائیٹڈ بینک پر اعتماد کر رہا تھا۔

1970 کے لگ بھگ ملک بھر میں یونائیٹڈ بینک کی 912 شاخیں کھل چکی تھیں جن میں سے 224 شاخیں مشرقی پاکستان میں تھیں۔ بیرون ملک قائم ہونے والی 24 برانچیں ان کے علاوہ تھیں۔

مشرقی پاکستان میں آغا حسن عابدی کو صالح نقوی کی رفاقت میسر آئی جو مغربی پاکستان سے تبادلہ ہو کر مشرقی پاکستان بھیجے گئے تھے مگر انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے مشرقی پاکستان کا کاروباری میدان فتح کر لیا تھا۔
کراچی کی آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع اس عمارت میں کئی برسوں تک بی سی سی آئی کے دفاتر موجود تھے۔ (بائیں) آج بھی یہ عمارت ایک نجی بینک کی ملکیت ہے

ایک عالمی بینک کے قیام کا خواب

1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یونائیٹڈ بینک کو مشرقی پاکستان سے بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔ صالح نقوی سقوط ڈھاکا سے بہت پہلے مغربی پاکستان آ چکے تھے۔ اب آغا حسن عابدی نے ایک عالمی بینک کے قیام کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ یکم جنوری 1974 کو جب حکومت پاکستان نے پاکستان کے تمام بینک قومی تحویل میں لیے تو آغا حسن عابدی اس بینک کے قیام کی تیاری مکمل کرچکے تھے۔

انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا۔ اس بینک کو لکسمبرگ میں رجسٹر کروایا گیا تھا۔

آغا حسن عابدی کا خواب تھا کہ وہ ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کریں جس کے سرمایہ کار مسلمان ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ بینک کمزور مسلمان ممالک کو بہت کم شرح سود پر قرض دے کر انھیں معاشی طور پر مضبوط کرے اور تیسری دنیا کے محروم، پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام بھی ترقی یافتہ اقوام کے دوش بدوش آگے بڑھ کرسکیں۔

آغا حسن عابدی، شیخ زید بن سلطان النہیان کی اعانت سے اپنے بینک کو ترقی دیتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے 72 ممالک میں بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی چار سو سے زیادہ شاخیں قائم ہو گئیں، اس کے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار تک پہنچ گئی اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا بینک بن گیا۔

بی سی سی آئی کہنے کو صرف ایک بینک تھا مگر اس کے اہداف بہت اعلیٰ تھے۔ اس نے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کی بہبود کے لیے مختلف منصوبوں پر کام شروع کیا۔

آغا حسن عابدی نے سب سے پہلے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی اور کراچی سے لے کر صوابی تک متعدد ادارے قائم کیے جن میں کورنگی اکیڈمی، فاسٹ یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سرفہرست تھے۔ بے گھر افراد کے لیے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ اور نادار فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے انفاق فاؤنڈیشن جیسے اداروں کا قیام ساری دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ بی سی سی آئی نے صحت عامہ پر بھی خرچ کرنا شروع کیا اور کراچی میں ایس آئی یو ٹی اور لیڈی ڈفرن ہسپتال کو بھی خطیر عطیات سے نوازا۔

بی سی سی آئی کی ترقی کا راز، قدرت اللہ شہاب کی زبانی

آغا حسن عابدی کی کامیابیاں اور کامرانیاں افسانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی تھیں، مگر مغربی دنیا ان کی کامیابیوں کو رشک سے زیادہ حسد کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں، 'اکتوبر 1981 میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے نیو اسٹیٹسمین (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گزرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر چھپی تھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا: ہائی اسٹریٹ کا بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔'

'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔'

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: 'بی سی سی آئی کی ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سرد مہر، بے حس اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔'

وہ مزید لکھتے ہیں: 'یہ مضمون پڑھ کر مجھے کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔'
انھوں نے شہاب نامہ میں آغا حسن عابدی سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ادارے کی انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان رشتہ ایسا تھا کہ ہر فرد خود کو ادارے کا فعال رکن تصور کرتا تھا۔

ادارے کے زیر انتظام نہ صرف متعدد فلاحی ادارے کام کر رہے تھے بلکہ ادارہ کے ہر کارکن کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی تھی کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کے کام میں لائے گا۔

تاہم کوئی ملازم اس شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ معاملہ ہر شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔

ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا مگر پھر اس کی یہی ترقی اور فلاحی کام بین الاقوامی
اداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔

دنیا کا سب سے مطلوب شخص

سنہ 1988 میں آغا حسن عابدی نے بیماری کے سبب بی سی سی آئی سے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اس بینک پر پاکستان کے جوہری پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے اور مختلف ممالک کے سابق سربراہان اور جرائم پیشہ افراد کا کالا دھن سفید کرنے سمیت بہت سے الزامات عائد کیے گئے اور آغا حسن عابدی دنیا بھر میں مطلوب ترین آدمی بن گئے۔

پانچ جولائی 1991 کو انگلینڈ، لکسمبرگ، کیمن آئی لینڈز، امریکہ، فرانس، سپین اور سوئٹزر لینڈ میں بی سی سی آئی کے اثاثوں اور لاکھوں کھاتے داروں کا سرمایہ منجمد کر دیا گیا۔

امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ آغا حسن عابدی کو تفتیش کے لیے اس کے حوالے کر دیا جائے مگر پاکستان نے انھیں امریکہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔

آغا حسن عابدی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بی سی سی آئی کی سربراہی صالح نقوی نے سنبھالی تھی۔ انھیں ابوظہبی سے گرفتار کر کے امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں 1994 میں انھیں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

رہائی کے بعد وہ پاکستان آئے جہاں انھوں نے بی سی سی آئی کے رفاہی کاموں کی سربراہی سنبھال لی۔ انھوں نے بی سی سی آئی کے عروج و زوال پر ایک کتاب بھی تحریر کی، مگر وہ کتاب اب تک شائع نہیں ہوسکی ہے۔ سات ستمبر 2019 کو صالح نقوی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے اور یوں بی سی سی آئی کی داستان اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

پاکستان کے لیے آغا حسن عابدی کی خدمت کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ انھیں جدید پاکستان کے معماروں میں گِنا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام کراچی میں گزارے، وہ فالج کا شکار ہو چکے تھے اور انھیں گفتگو کرنے میں بھی بہت دقت ہوتی تھی اور پانچ اگست 1995 کو کراچی میں ان کی وفات ہو گئی اور وہ علی باغ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
💔

No comments: