جہانگیر28 اکتوبر1627ء کو انتقال کر گیا اور
شاہ جہاں نے تخت سنبھال لیا‘ وہ 30سال ہندوستان کا بادشاہ رہا‘ یہ 30سال
ہندوستان کی تاریخ کے شاندار ترین سال تھے‘ آپ کو آج ہندوستان میں مغلوں کی
جتنی نشانیاں ملتی ہیں وہ سب ان 30برسوں میں تخلیق ہوئیں اور ان کے پیچھے
شاہ جہاں کا دماغ اور جذبہ تھا‘ آپ تاج محل دیکھ لیجیے‘ یہ دنیا کے سات
عجوبوں میں شامل ہے‘ یہ ہندوستان میں گنبد والی پہلی عمارت تھی‘ شاہ جہاں
نے اس کے لیے اٹلی‘ ترکی اور ایران سے ایکسپرٹس منگوائے اور اس پر اس دور
میں 32ملین ہندوستانی روپے خرچ ہوئے۔
تاج
محل اس زمانے میں دنیا کی مہنگی ترین عمارت تھی‘ آپ دہلی کا لال قلعہ دیکھ
لیجیے‘ یہ آج عالمی سطح پر بھارت کی نشانی ہے‘ یہ قلعہ بھی شاہ جہاں نے
بنوایا‘ لاہور قلعے کی موتی مسجد تعمیر کا عظیم معجزہ ہے‘ آپ اس کے اندر جا
کر دیکھیں یہ چھوٹی سی مسجد آپ کی روح کا حصہ بن جائے گی‘ یہ شاہ جہاں نے
بنوائی تھی‘ لاہور قلعے کی بیرونی دیوار اور شیش محل بھی شاہ جہاں نے
بنوایا تھا‘ شاہ جہاں نے شیش محل کی جگہ سونے کا محل بنوایا تھا‘ ملکہ
ممتاز محل کو پتا چلا تو اس نے کہا‘ بادشاہ سلامت سونے کے محل پوری دنیا
میں ہیں‘ آپ اگر مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں تو آپ مجھے ستاروں کا محل بنا
کر دیں۔
بادشاہ نے حکم دیا”سونے کا محل
گرا دیا جائے“ محل گرا دیا گیا‘ بادشاہ نے اس کے بعد شیش محل کی ڈرائنگ
بھجوائی اور شیش محل بن گیا‘ آپ کسی دن رات کے وقت شیش محل جائیں‘ چھوٹی سی
ٹارچ جلائیں اور اس کے بعد ستاروں کو زمین پر اترتے ہوئے دیکھیں‘ آپ لاہور
کی مسجد وزیر خان دیکھیں‘ دہلی کا قطب مینار دیکھیں‘ یہ مینار قطب الدین
ایبک نے بنوایا تھا لیکن اس کی توسیع اور مضبوطی کا کام شاہ جہاں نے کرایا‘
آپ سری نگر اور لاہور کے شالیمار گارڈن دیکھ لیں‘ آپ دہلی کی جامع مسجد
دیکھ لیں۔
پ تخت طاؤس کو بھی لے لیجیے‘
یہ تخت بھی شاہ جہاں نے1635ء میں بنایا تھا اور اس پرسونااور قیمتی ہیرے
جواہرات لگے تھے‘ آپ کوہ نور ہیرے کو لے لیجیے‘ یہ ہیرا بھی شاہ جہاں نے
حاصل کیا تھا اور اپنے تاج میں لگوایا تھا اور آپ ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد
کو بھی دیکھ لیجیے‘ یہ دنیا کی واحد عمارت ہے جس میں 93 گنبد ہیں غرض آپ
ہندوستان کی کسی بھی شاندار عمارت کی تاریخ کھود کر دیکھ لیں‘ آپ کو اس کے
پیچھے شاہ جہاں ملے گا‘ شاہ جہاں کی محبت صرف یہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ
آپ مغل آرٹ‘ مغل آرکی ٹیکچر‘ مغل میوزک اور مغل لٹریچربھی لے لیجیے۔
یہ
سارے فن شاہ جہاں کے دور میں پروان چڑھے اور اسی کے زمانے میں نقطہ کمال
تک پہنچے چناں چہ شاہ جہاں نے جہانگیر سے جو کہا تھا وہ کر دکھایا‘ اس نے
ملک سے واقعی محبوبہ کی طرح محبت کی‘ اس نے ثابت کر دیا ملکوں کو وہی لوگ
بناتے ہیں جو ملکوں سے محبوب کی طرح محبت کرتے ہیں۔میں جب بھی لوگوں کو ماں
یا باپ کی قسم کھاتے دیکھتا ہوں تو میں ہنس کر ان سے کہتا ہوں ”ابا یا
اماں نہیں محبوبہ یا بیوی کی قسم کھاؤ“ اور وہ قہقہہ لگا کر منہ دوسری طرف
پھیر لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے محبت میں
جنون رکھا ہے‘ انسان اپنی ماں یا اولاد سے گفتگو سے تھک جاتا ہے‘ یہ عبادت
کو زیادہ وقت نہیں دے گا لیکن محبوب یا محبوبہ سے ساری ساری رات گفتگو کرتا
رہے گا‘ یہ موبائل پر گھنٹوں بات کرے گا لیکن تھکے گا نہیں‘ یہ مل مل کر
اور دیکھ دیکھ کر بھی نہیں اکتائے گا اور عاشق ایک دوسرے کا دہائیوں تک
انتظار بھی کر لیں گے‘ محبت کمال جذبہ ہے‘ دنیا جہاں کی تخلیقات اس جذبے سے
جنم لیتی ہیں‘ آپ آرٹ کو دیکھ لیجیے‘ ادب‘ شاعری‘ تصوف‘ آرکی ٹیکچر اور
بزنس کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو ہر بڑا فن کار محبت کی کوکھ سے جنم لیتا نظر آئے
گا۔
شاعر صرف شاعر ہوتا ہے‘ محبت آتی ہے
اور عام شاعر عظیم ہو جاتا ہے‘ دکان دار صرف دکان دار اور کھلاڑی صرف
کھلاڑی ہوتا ہے‘ محبت ڈنک مارتی ہے اور پرچون کا دکان دار بزنس مین اور عام
کھلاڑی بین الاقوامی بن جاتا ہے‘ انسان 28 جذبے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے‘
ان 28 جذبوں میں صرف محبت میں ایٹمی طاقت ہے‘ یہ انسان کو اندر اور باہر سے
جلا کر کندن بنا دیتی ہے چناں چہ میرے پاس جب بھی کوئی نوجوان کام یابی یا
ترقی کا نسخہ لینے آتا ہے تو میں اسے شاہ جہاں کا یہ واقعہ سناتا ہوں اور
اس سے کہتا ہوں‘ تم جتنا وقت اپنی محبوبہ یا محبوب کو دیتے ہو تم اس سے
آدھا وقت اپنے مقصد کو دے دو۔
تم جتنی
محبت کسی دوسرے سے کرتے ہو تم اس سے آدھی محبت اپنے ارادے سے کر لو تم چند
برسوں میں وہاں پہنچ جاؤ گے جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا‘ تم بس ایک دفعہ
شاہ جہاں بن جاؤ اور اس کے بعد تم تماشا دیکھو‘ تم دنیا کو حیران کر دو
گے‘ خواہش اور ارادے میں بڑا فرق ہوتاہے۔ ”میں یہ چاہتا ہوں“ اور ”میں یہ
کر رہا ہوں“ آپ دونوں میں زمین آسمان کا فرق دیکھیے۔ ”میں کر رہا ہوں“
ارادہ ہے اور ”میں چاہتا ہوں“ خواہش ہے‘ ترقی اورکام یابی ارادے سے ملتی ہے
خواہش سے نہیں اور ارادہ محبت سے جنم لیتا ہے۔
آپ
جتنی محبت کرتے جاتے ہیں آپ کا ارادہ اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اپنے
گول کے اتنے ہی قریب ہوتے جاتے ہیں چناں چہ آپ اپنے گول سے محبت کریں‘ آپ
پار لگ جائیں گے‘ دنیا میں اگر کتا بھی محبت کرے تو یہ بھی اصحاب کہف کے
ساتھ جنت کا حق دار ہو جاتا ہے اور آپ تو ہیں ہی انسان‘ آپ کہاں تک نہیں
پہنچ سکتے؟ فرہاد نے محبت میں چار پتھر کاٹے تھے‘ پتھر‘ نہر‘ فرہاد اور
شیریں چاروں رخصت ہو گئے لیکن دنیا جب تک دنیا ہے فرہاد کی نہر محبت کی
داستانوں میں زندہ رہے گی اور آپ کی خواہش تو معمولی سی کام یابی کی معمولی
سی تمنا ہے‘ یہ کیوں پوری نہیں ہو گی؟۔
آپ
کیسے ناکام رہ سکتے ہیں لہٰذا آپ جو چاہتے ہیں آپ اسے اپنی محبوبہ بنا لیں
اور خود کو محبوب اور اس کے بعد آپ کمال دیکھیے‘ آپ اپنی کھلی آنکھوں سے
وقت اور حالات کو تبدیل ہوتے دیکھیں گے۔آپ یقین کریں اگر محبت میں جان نہ
ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی نہ کہتا‘تم اگر مجھے پانا چاہتے ہو تو تم مجھ سے
اپنے مال‘ جان اور اولاد سے زیادہ محبت کرو‘ میں تمہیں مل جاؤں گا‘ محبت تو
انسان کو خدا تک پہنچا سکتی ہے‘ یہ چھوٹی‘ معمولی سی کام یابی کیا چیز ہے؟
اور یہ ہے کام یابی کا شاہ جہانی فامولا!
No comments:
Post a Comment